پرانے زمانے میں شہر سو کوسوں دور ایک گاؤں میں سیلاب آگیا۔ ہزاروں لوگ پانی میں بہہ گئے۔ سینکڑوں لوگ پانی میں ڈوبنے سے بچ تو گئے مگر اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ بچاتھا۔گاؤں میں ایک غریب کسان تھا۔ ایک سنار سے اس اچھی کی دوستی تھی۔ اس نے سنار کو تلاش کیا تو اتفاق سے اس کا گھر اور سب گھر والے سلامت تھے۔کسان اپنی بیوہ کے ساتھ جب اپنے دوست سنار کے پاس پہنچا تو وہ بھی اپنی پریشانی بیان کرنے لگا: ”بھائی! میرا گھر تو چلو سیلاب سے بچ گیا، مگر دکان سیلاب سے برباد ہوگئی اور تمام مال اور زیورات بھی سیلاب کی نظر ہوگئے۔“”پھر کیا کریں؟“ کسان نے سنار سے سوال کیا۔”میرا خیال ہے کہ شہر چلتے ہیں۔ وہاں جاکر ضرور کہیں نہ کہیں نوکری یا مزدوری مل جائے گی۔ راستہ بہت طویل ہے او ہمارے پاس کوئی سواری بھی نہیں ہے۔کسان نے خیال پیش کرتے ہوئے کہا۔”تو کیا ہو ہمت کرو، اللہ مالک ہے۔“سنار کے خیالات سے کسان کو بہت حوصلہ ملا۔ ”ٹھیک ہے تو کل صبح یہاں سے روانہ ہوں گے۔ “ سنار نے مشورہ دیتے ہوئے کہا: ”ہم دونوں کے بیوی بچے گاؤں میں ہی رہیں گے۔ دوسرے گاؤں سے میرا بھائی کھانے پینے کا سامان لے کر آنے والا ہے، تم اس کی فکر نہ کرو۔“ دونوں نے ضرورت کا کچھ سامان ساتھ لیا اور شہر کی طرف چل پڑے۔ چلتے چلتے آخر کھانے پینے کا سامان بھی ختم ہوگیا۔ سنار کو بخار نے آگھیرا اور وہ بے چارہ چلنے سے بھی معذور ہوگیا۔ آخر کسان نے اسے درختوں کی آڑ میں محفوظ جگہ پر لٹا دیا اور خود گرتا پڑتا جنگلی پھل وغیرہ تلاش کرنے چل دیا۔ کچھ دور چلا تھا کہ راستے میں اسے ایک شیر ملا، جو درد کی تکلیف سے بے حال ہوئے جارہا تھا۔ شیر کو دیکھ کر کسان کو تھرتھری سی لگ گئی، مگر شیر پھر بھی نہ اٹھ سکا، بلکہ کسان سے کہنے لگا: ”اے بھائی! میں تجھے کچھ نہ کہوں گا، تو میری مدد کردے، اللہ تیرا بھلا کرے گا۔“کسان نے شیر کو انسان کی زبان میں بات کرتے دیکھا تو اور بھی ڈرگیا۔شیر نے کہا: ” اے بھائی! مجھ دے نہ ڈر۔ میں نے اللہ سے دعا مانگی ہے کہ مجھے بات کرنے کیلئے کچھ دیر کیلئے زبان دے دے۔“ ”بھائی! میرے پچھلے پاؤں میں بہت بڑا کانٹا گھس گیا ہے۔ تکلیف سے مرا جاتا ہوں، یہ کانٹا نکال کر میری جان بچالے، ورنہ کوئی شکاری ادھر آگیا تو میری کمزوری سے فائدہ اٹھا کر مجھے قید کرلے گا۔“وعدہ کرتا ہوں کہ میں تجھے ہر گز کوئی نقصان نہ پہنچاؤں گا، بھلا کوئی اپنے محسن کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ ایسا تو تم انسانوں میں ہوتا ہے۔“کسان نے ہمت کی اور آگے بڑھ کر شیر کے پاؤں کے اندر تک گھسا ہوا کانٹا نکال دیا۔ زخم کو صاف کرکے اوپر رومال پھاڑ کر پٹی باندھ دی۔شیر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ” اے نیک انسان! تیری اس نیکی کا میں کیا بدلہ دوں گا۔ کسان نے شیر سے کہا: ”اے شیر بھائی! میرا ایک اور ساتھی بھی کچھ دور جنگل میں بیمار پڑا ہوا ہے پہلے مجھے کچھ کھانے کیلئے جنگلی پھل وغیرہ کا درخت بتادے تو مہربانی ہوگی۔شیر نے کہا: میں تجھے ایک ایسی نایاب بوٹی کا پودا دکھاؤں گا چاہے کیسی ہی بیمار ہو ا سکی پتیاں پیس کر مریض کو پلادیں۔ ان شاء اللہ ایک دو دن میں بالکل تندرست اور توانا ہوجائے گا۔ ہم جانور بھی بیمار ہوجاتے ہیں تو اکثر یہی بوٹی تلاش کر کے کھالیتے ہیں۔ کچھ دور جا کر شیر نے چھوٹے چھوٹے پودوں کی طرف پنجے سے اشارے کرتے ہوئے کسان سے کہا: ”یہ ہے وہ پودا جو ہر بیماری میں اللہ کے کم سے شفا دیتا ہے۔ غریب آدمی نے جلدی جلدی کچھ پودے تو ڑ کر سامان میں رکھ لیے۔شیر نے مشورہ دیا: ”یہ بوٹی تم اپنے دوست کو کسی پتھر سے کچل کر پانی سے کھلا دینا، ان شاء اللہ کچھ ہی دیر میں تندرست ہوجائے گا۔“کسان نے شیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ”اے اچھے شیر! تیرا بہت بہت شکریہ۔ اب مجھے اجازت چاہیے۔ میرا دوست میرا انتظار کررہا ہوگا۔“شیر نے کہا: کافی دنوں پہلے ایک شہزادہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں شکار کھیلنے آیا تھا۔ مگر چیتے اور ریچھ نے ان پر اچانک حملہ کردیا تھا۔ کچھ جان بچا کر بھاگ نکلے، مگر شہزادہ اور اس کا ایک ساتھی مارے گئے تھے۔ شہزادے کے گلے میں موتیوں کے ہار تھے۔ یہ ہیرے موتیوں کے ہار میں لے آیا اور اپنے غار میں ایک جگہ چھپا دیے تھے۔ یہ تم لے جاؤ اور بادشاہ کو دے دینا۔ موتیوں کے
ہار دینے کے بعد شیر بولا:’’ جاؤ خدا حافظ ہمیشہ نیک رہنا اور نیکی کرتے رہنا۔ “ کسان شیر سے رخصت ہو کر اپنے ٹھکانے پر آگیا۔ سنار کو اٹھا کر اسے بوٹی کچل کرپلادی۔ کچھ دیر میں سنار کا بخار ختم ہوگیا اور وہ بھلا چنگا نظر آنے لگا۔ کسان نے اسے جب تمام حالات بتائے اور شہزادے کے قیمتی جواہر کے ہار دکھائے تو سنار کے دل میں لالچ پیدا ہوگیا او جواہرات چرانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ کھانے پینے کا ذخیرہ مل چکا تھا۔ لہٰذا دونوں پھر شہر کی طرف چل پڑے۔ شہرپہنچ کر پاس ایک مسافر خانے میں یہ دونوں ٹھہر گئے۔ سنار کے دل میں لالچ تھا۔ جیسے ہی موقع ملا وہ جواہرات چرا کر بھاگ نکلا اور گھر کی راہ لی۔ادھر ملکہ بیٹے کے غم میں بیمار ہو کر موت او زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ بادشاہ کا اعلان تھا کہ جو کوئی ملکہ کا علاج کر کے اسے اچھا کرے گا، اسے آدھی سلطنت انعام دی جائے گی۔ کسان بادشاہ کے محل پہنچ گیا اور سپاہیوں سے آنے کا مقصد بیان کیا تو وہ اسے بادشاہ کے پاس لے گئے۔بادشاہ نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا: ”اے شخص! تم طبیب تو نہیں لگتے، کہو پھر کیسے علاج کروگے؟ کسان نے کہا: ” آپ مجھے ملکہ عالیہ کے پاس لے چلیں۔ ان شاء اللہ پہلی ہی خوراک سے ملکہ عالیہ تندرست ہونے لگیں گی۔“”اچھا یہ بات ہے (باقی صفحہ نمبر53 پر)
(بقیہ: شیر کا غریب کسان پر احسان)
تو آؤ میرے ساتھ۔“بادشاہ ملکہ کے پاس کسان کو لے کر آگیا۔ کسان نے جیب سے بوٹی نکال کر اسے پانی میں گھول کر جیسے ہی پلایا، ملکہ کے ہاتھ پاؤں میں جنبش ہونا شو ہوگئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ دوسرے دن وہ بات چیت کرنے کے قابل ہوگئی۔ تمام خدام، کنیزیں اور خودبادشاہ بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ شام تک ملکہ جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہوگئی۔بادشاہ نے غریب اور نادار عوام کیلئے خزانے کے منہ کھول دیے۔ کسان کو آدھی سلطنت دینے کا بھی اعلان کردیا گیا۔کسان نے بادشاہ سے کہا: ”عالی جاہ! شہزادہ شکار کے دوران مارا گیا تھا۔ پھر اس نے شروع سے لے کر آخر تک سارے حالات کا بادشاہ سے ذکر کرتے ہوئے سنار ک بدعہدی اور دھوکے کا ذکر بھی کیا کہ کہ سنار شہزادے کے قیمتی ہار چرا کر فرار ہوگیا ہے۔ گاؤں میں سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہیوں سے بھی بادشاہ کو آگاہ کرتے ہوئے اس سے مدد کرنے کی اپیل بھی کی۔
بادشاہ کو سنار کی دھوکے بازی پر سخت غصہ آیا۔ اس نے فوراََ سپاہیوں کا ایک دستہ روانہ کرتے ہوئے سنار کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کردیا اور گاؤں والوں کیلئے امدادی سامان اور مدد کیلئے کارندے بھی روانہ کیے۔
بادشاہ نے کسان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے آدھی سلطنت دینے کی خواہش کی تو کسان نے کہا: ”بادشاہ سلامت! آپ اور آپ کی حکومت کو اللہ سلامت رکھے، آپ کی ضرورت آپ کے ملک کو ہے۔“بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اسے اپنا بیٹا بناکر بعد میں وزیراعظم بنادیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں